Saturday, November 2, 2013

اب سنجیدہ ہونا پڑے گا



اب سنجیدہ ہونا پڑے گا

مادیت پرستی اتنی چھا چکی ہے ہمارے معاشرے میں کہ اب ہمارا زیادہ تر نوجوان تیں خواہشات دل میں رکھتے ہیں۔ ۱۔ بے تحاشہ پیسہ، ۲۔ بہت زیادہ شہرت، ۳۔ دنیا اس کی مرضی سے چلے اس کی سوچ پہ چلے اور اس کی جائز نا جائز خواہشات پوری ہوں۔اس کے علاوہ بھی خواہشات ہوتی ہیں ہمارے دلوں میں مثلاً دین کی سر بلندی ، ملک و قوم کی خدمت لیکن وہ اتنی شدید کم ہی لوگوں میں ہوتی ہیں کہ ان کو پورا کرنے ک لیے باقی خواہشات کو مار دیا جائے۔اب بہت سے لوگوں کے ذہن میں فوراً یہاں پہ یہ خیال پیدا ہوتا ہے کہ ایسے بے شمار نوجوان ہیں جو صرف ملک و ملت کی اور مذہب کی خدمت میں لگے ہوئے ہیں اور یہی ان کی زندگی کا مقصد ہے۔ مگر جو بات سوچنے کی ہے وہ یہ ہے کہ ایسے نوجوان اور لوگ اکثر وہ ہیں جن کی کوئی اپنے لحاظ سے تربیت کرتا ہے۔ ملک سے محبت تو خوش قسمتی سے ہمارے نوجوانوں میں بڑھ رہی ہے لیکن مذہب کے قریب جو لوگ آ رہے ہیں انہیں بدقسمتی سے اکثر لوگ اپنے یا اغیار کے مقاصد کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔ان کی اس قدر برین واشنگ ہو چکی ہے کہ وہ آپ کی کتنی بھی سہی بات ہو اس کو رد کر دیں گے چاہے اس کے لیے کتنا ہی بڑا ثبوت ہو آپ کے پاس۔
بد قسمتی سے پچھلے ایک مہینے میں دو لوگ مجھ پہ بالکل ایک دوسرے کے بر عکس فتویٰ جاری کر کے کافر اور خارجی قرار دے چکے ہیں۔ ایک صاحب ہمارے ٹی وی پہ اکثر نظر آنے والے انڈیا اور امریکہ کے خلاف بولنے والے ماڈرن مولوی نما صاحب ہیں۔ ان کے سٹوڈنٹ کا کہنا تھا کہ میں بہت انتہا پسند ہوں اور خارجی ہوں جبکہ ایک مشہور ہر حکومت میں شامل مولوی صاحب کے سٹوڈنٹ کا کہنا تھا کہ مجھے خدا اور رسول کا کوئی پتہ نہیں۔میں کافر ہوں۔
اب اس کا حل یہی کے ہم لوگوں کو سنجیدہ ہونا پڑے گا۔ ہم لوگ جو اپنی ذات سے باہر نکلنا ہی نہیں چاہ رہے ہمیں اپنی خواہشات کو تھوڑا سا دبا کے حقیقت کا ادراک کر کے اپنی شناخت الگ کرنی ہو گی۔ ہم جو دوسرے لوگوں اور دوسری قوموں کی نقالی میں مصروف ہیں ہمیں یہ سیکھنا اور اپنی نسل کو سکھانا پڑے گا کہ ان کی صرف اچھی چیزوں کی نقالی کرنا ہی کافی ہے۔ ہماری اپنی اقدار اپنا مذہب اپنے قوانین اتنے اچھے ہیں کہ دوسری قوموں کو ہماری نقالی کرنی چاہیے۔ ہمیں خود تو پاکستان پہ فخر کا دعویٰ ہے ہی مگر اب ہمیں خود کو بھی ایسا بنانے کی ضرورت ہے کہ ملک و ملت و مذہب کو بھی ہم پہ فخر ہو۔ خدارا مثبت مکالمے کو فروغ دیں۔ آیئں ہم سب مل کے اپنی تصیح کریں۔ کسی سے بات کرتے وقت یہ بات نہ سوچیں کہ ہم بالکل سہی ہیں۔ دوسرے کی بات سنیں، ہر لحاظ سے پرکھیں اور پھر سب پہلووؑں پہ سوچنے کے بعد غلط یا سہی کہیں۔ خدا ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔ وسلام
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔توصیف احمد کشافؔ
بد قسمتی سے پچھلے ایک مہینے میں دو لوگ مجھ پہ بالکل ایک دوسرے کے بر عکس فتویٰ جاری کر کے کافر اور خارجی قرار دے چکے ہیں۔ ایک صاحب ہمارے ٹی وی پہ اکثر نظر آنے والے انڈیا اور امریکہ کے خلاف بولنے والے ماڈرن مولوی نما صاحب ہیں۔ ان کے سٹوڈنٹ کا کہنا تھا کہ میں بہت انتہا پسند ہوں اور خارجی ہوں جبکہ ایک مشہور ہر حکومت میں شامل مولوی صاحب کے سٹوڈنٹ کا کہنا تھا کہ مجھے خدا اور رسول کا کوئی پتہ نہیں۔میں کافر ہوں۔اب اس کا حل یہی کے ہم لوگوں کو سنجیدہ ہونا پڑے گا۔ ہم لوگ جو اپنی ذات سے باہر نکلنا ہی نہیں چاہ رہے ہمیں اپنی خواہشات کو تھوڑا سا دبا کے حقیقت کا ادراک کر کے اپنی شناخت الگ کرنی ہو گی۔ ہم جو دوسرے لوگوں اور دوسری قوموں کی نقالی میں مصروف ہیں ہمیں یہ سیکھنا اور اپنی نسل کو سکھانا پڑے گا کہ ان کی صرف اچھی چیزوں کی نقالی کرنا ہی کافی ہے۔ ہماری اپنی اقدار اپنا مذہب اپنے قوانین اتنے اچھے ہیں کہ دوسری قوموں کو ہماری نقالی کرنی چاہیے۔ ہمیں خود تو پاکستان پہ فخر کا دعویٰ ہے ہی مگر اب ہمیں خود کو بھی ایسا بنانے کی ضرورت ہے کہ ملک و ملت و مذہب کو بھی ہم پہ فخر ہو۔ خدارا مثبت مکالمے کو فروغ دیں۔ آیئں ہم سب مل کے اپنی تصیح کریں۔ کسی سے بات کرتے وقت یہ بات نہ سوچیں کہ ہم بالکل سہی ہیں۔ دوسرے کی بات سنیں، ہر لحاظ سے پرکھیں اور پھر سب پہلووؑں پہ سوچنے کے بعد غلط یا سہی کہیں۔ خدا ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔ وسلام۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔توصیف احمد کشافؔ

Thursday, October 17, 2013

    احوال ایک کمانڈو ایکشن کا
عید کا دن ایک رات کی دوری پر ہو تو بازاروں میں رش بھی شدید ہوتا ہے۔ کچھ کمیٹی والوں کی چھابڑی والوں سے کمیٹی کے پیسے بنانے کی خواہش آدھے سے زیادہ بازار کا راستہ ویسے ہی بند کر دیتی ہے۔
ایسے میں آج میں بازار گھر والوں کے ساتھ عید کی شاپنگ جیسے مار دینے کی حد تک بور کام کے لیے پہنچا۔ بازار کے ایک چوک میں راستہ ملنے کے انتظار میں کھڑے تھے کہ ایک دم ساتھ سے گزرنے والے جوان آدمی کی شرٹ کندھے سے پکڑ کے ایک لڑکی نے کھینچی۔
میں سمجھا یہ کوئی اس کی فیملی کی لڑکی ہے جو اسے موٹرسائکلوں کو پھلانگنے سے منع کر رہی ہے مگر اگلے ہی لمحے لڑکی نے یہ کہتےہوئے کہ ہاتھ کہاں لگایا تم نے اسے ایک زوردار تھپڑ جڑ دیا۔اس سے پہلے کہ وہ لڑکا اپنا بچاوء کرتا یا کچھ بولتا دوسری سائڈ سے ایک اور لڑکی نے زوردار تھپڑ جڑ دیا۔
اس سے بھی حیران کن منظر وہ ہم نے اور ہمارے ساتھ آسمان اور سارے بازار نے دیکھا جب ایک لڑکی نے باقاعدہ اس کے سینے پہ تقریباٗ فلائنگ کک جڑی۔
اس بے چارے( اگر وہ قصور وار تھا بھی تو اس اچانک افتاد کے بعد بے چارا ہو چکا تھا) نے کہا بھی کہ میں نے ایسا کچھ نہیں کیا ایک لڑکی نے اپنا ایڑی والا جوتا اتار لیا۔یہ دیکھ کے اس آدمی نے اپنے بچاوء کے لیے دو لڑکیوں کے ہاتھ پکڑے تو میں نے اسے اپنی طرف کھینچ لیا۔ ایک لڑکی بولی " امی اس کا گلا دبا دیں"۔
خیر اس سے پہلے کے اس آدمی کا مزید کباڑا ہوتا لوگوں نے بیچ بچاوء کروا کے اسے وہاں سے بھیج دیا۔
اس ساری کاروائی میں دو منٹ سے زیادہ وقت نہیں لگا ہو گا۔
میں سوچ رہا تھا کہ پاکستانی پولیس کو ان لڑکیوں سے کمانڈو ایکشن سیکھنا چاہیے جنہوں نے 2 منٹ سے کم وقت میں بغیر کسی ہتھیار کے ایک ہٹے کٹے جوان کو زمین چاٹنے پر مجبور کر دیا۔
توصیف احمد کشافؔ

Monday, October 14, 2013

                   تعلیم بالغاں
آخرکار میں نے اپنے قیمتی وقت میں سے کچھ لمحے آپ لوگوں کی تعلیم و تربیت کے لیے مختص کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
آپ لوگوں کی کم علمی اور ناسمجھی اپنی جگہ مگر مجھے جس بات نے یہ راست قدم اٹھانے پہ مجبور کیا وہ مجھ بڑے ادیب کی تحریروں اور شاعری پہ کیے جانے والے اعتراضات ہیں۔کسی کو میری اعلی پائے بلکہ اعلی چار بائے کی شاعری کے وزن پہ اعتراض ہے توکسی کو میری سنجیدہ اور عقل و دانش کی باتون سے بھر پ
ور تحریریں مزاحیہ یا خرافات نظر آتی ہیں۔
سب سے پہلے میں آپ لوگوں کو اپنی شاعری پہ کیے جانے والے اعتراضات کے پر مغز جوابات دوں گا اور ساتھ ہی جدید شاعری کو پڑھنے، سمجھنے اور لکھنے کا طریقہ بھی سکھاوں گا۔
ایک اور وضاحت بھی کر دوں کہ میں یہ کام صرف خدا ترسی اور علم و ادب کی خدمت کی غرض سے کر رہا ہوں مجھے کوئی بھی ایزی پیسہ کے ذریعے لیکچر کی فیس ادا کرنے کی کوشش نہ کرے۔ اگر پھر بھی کوئی بھجوائے گا تو ظاہر ہے میں کسی کے خلوص کو ٹھکرانے کا گناہ تو نہیں کر سکتا ناں۔
میری شاعری پہ پہلا اعتراض یہ کیا جاتا ہے کہ اس کا وزن برابر نہیں ہے۔
میرے پیارے سٹوڈنٹس اپنے سکول کے زمانے میں ریاضی پہ بھی تھوڑی توجہ دینی تھی ناں۔ کیا ضروری تھا کہ گریس مارکس یا پورے 33 فیصد نمبر ہی لینے ہیں؟
آپ لوگ میری غزلوں کے سب مصرعون کا وزن جمع کر کے کل مصرعوں پہ تقسیم کر کے ایورج وزن نکال لیں۔ آسان سا کام ہے۔
پھر بھی اگر کسی سے اتنی معمولی سی جمع اور تقسیم نہیں ہو سکتی تو میں نے اپنے ایسے نالائق سٹوڈنٹس کے لیے اپنی شاعری میں ایک اور گنجائش بھی رکھی ہے اور وہ یہ کہ آپ میری شاعری کے الفاظ آگے پیچھے کر کے بھی حسب خواہش وزن بنا سکتے ہیں یا چاہیں تو کوئی لفظ ہی شعر سے نکال دیں۔ اس سے شعر کے معنی پہ کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ویسے بھی میں آپ لوگوں کے لیول کو مد نظر رکھتے ہووے معنی و مطالب کی قید سے آزاد شاعری لکھتا ہوں۔
مجھے یقین ہے کہ اب آپ لوگوں کو میری شاعری کے وزن پہ بالکل بھی اعتراض نہیں ہو گا۔
دوسرا اعتراض میری شاعری پہ یہ کیا جاتا ہے کہ میں قابل اعتراض الفاظ اپنی شاعری میںن شامل کرتا ہوں۔
اب یہ اعتراض سن کے تو میں سر پیٹ کے رہ جاتا ہوں۔
اللہ کے بندو آپ لوگوں نے کبھی آج کی تہذیب یافتہ اقوام جسے امریک اور برطانوی لوگوں کی گفتگو نہیں سنی؟ وہ لوگ تو ایسے ایسے الفاظ اپنی روزمرہ کی گفتگو میں استعمال کرتےہیں جنہیں ہم بہت بڑی گالی سمجھتے ہیں۔
ان کے گانوں کا جو آپ لوگ بہت شوق سے سنتے ہیں پنجابی میں ترجمہ کر کے آپ لوگوں کو سنایا جائے تو آپ لوگوں کے کانوں سے دھواں نکلنے لگ جائے۔
میں تو آپ لوگوں کو تھوڑا تہذیب یافتہ بنانے کے لیے ایسے الفاط اپنی شاعری میں استعمال کرتا ہوں۔
مجھے امید ہے کہ آپ لوگوں کے علم میں گراں قدر اضافہ ہوا ہو گا اور آپ لوگوں کی سوچ بھی آج کے لیکچر کے بعد تہذیب یافتہ ہوئی ہو گی۔ اگلے لیکچر تک کے لیے اللہ حافظ

کچھ ذکر بکروں کا

                                                                           کچھ ذکر بکروں کا
ناں جانے کیوں بکروں کا خیال آتے ہی مجھے میراثی یاد آ جاتے ہیں۔ شاید اس لیے کہ دونوں ہی بہت لاڈلے ہوتےہیں۔ دونوں ہی بہت نخریلے ہوتے ہیں۔ دونوں ہو پانی اور سردی سے بہت ڈرتے ہیں۔ دونوں ہی ذرا سی تکلیف پر شور مچا مچا کے آسمان سر پہ اٹھا لیتے ہیں۔
بکروں کے بارے میں مشہور ہے کہ ان کو بارش ہو گی یا نہیں پہلے پتہ لگ جاتا ہے۔ بزرگوں کی اس بات کی تو تصدیق نہیں ہو سکی ہاں یہ ضرور ہے کہ 10 کلو میٹر دور سے ہی بادل دیکھ کے اس وقت تک شور ضرور مچاتے ہیں جب تک آپ ان کو اندر کمرے میں نہ لے جائیں۔
بکرے کافی حد تک بچوں کی طرح ہوتے ہیں اور اسی طرح ہی آپ سے نخرے بھی اٹھواتے ہیں۔ پچھلی عید پہ ہم عید سے کچھ دن پہلے ہی بکرے لے آئے اور پھر پھنس گئے۔ گملوں میں موجود پودے تو کھائے سو کھائے مگر ایک بندے کو ہر وقت ان کے ساتھ ڈیوٹی بھی دینی پڑی کیونکہ وہ تنہائی کچھ ذیادہ ہی محسوس کرتے تھے اور گھر ک
ے کسی فرد کی غیر موجودگی میں شور مچاتے تھے۔اوپر سے نیند کے بھی شدید کچے۔ رات کو ان کو سوتا سمجھ کے جیسے ہی اٹھ کے اندر آنا میں میں میں شروع۔
بکرے اگر گھر کے پلے ہوئے ہوں تو پھر ان کے نخرے بھی دیدنی ہوتے ہیں اور ان کے ساتھ مزا بھی آتا ہے۔
گھر کے پلے بکرے اکثر سامنے رکھا ہوا چارا کھانے میں توہیں محسوس کرتے ہیں اور صرف آپکے ہاتھ سے ہی کھانا پسند کرتے ہیں۔
ایسے بکرے آپ کے لہجے کو پہچانتے بھی ہیں اور اس پہ رد عمل بھی ظاہر کرتے ہیں۔ کل ہی ایک دوست نے بتایا کہ جو بکرا ہم لائے ہیں وہ بہت تنگ کرتا ہے۔ امی نے غصے میں بولا تو وہ اگلی ٹانگیں اٹھا اٹھا کے ٹکریں مارنے لگ گیا۔ جب آرام سے بات کی تو پھر سکون سے ہاتھ سے چارا کھانے لگ گیا۔
توصیف احمد کشافؔ
 

Sunday, October 13, 2013

ساری دنیا انتہا پسند ہے۔
ساری دنیا انتہا پسند ہے۔ چاہے وہ لبرلز ہوں یا پھر مذہب پسند۔ کوئی اپنی بات کی مخالفت کرنے والوں کو دیکھنا پسند نہیں کرتا۔ بلکہ دنیا کی تاریخ اس بات کی گواہ ہے ک لبرلز کہلانے والوں نے ہی دنیا میں اکثر  اپنے مخالفین کا قتل عام کیا۔ وہ لوگ جو سزائے موت کے مخالف ہیں وہ اپنے مخالفین کو موت سے کم کسی سزا پہ معاف نہیں کرتے۔عراق، ویت نام، جاپان ، چین، کشمیر اور افغانستان کی تاریخ اس بات کی گواہ ہیں                                                                                     
۔
دنیا کے سب لبرلز میں ایک سب سے بڑی برائی یہ ہے کہ کوئی شخص کسی ایسی وجہ سے مشہور ہو جائے جو اسلام مخالف ہو تو پھر اس کی ہر بات کو بغیر تحقیق سچ مان لینا۔ اس کی غلط بات کو جانتے ہوئے بھی غلط نہ کہنا کہ جیسے اس کی غلط بات کو غلط کہنے سے اس کا قتل ہو جائے گا۔                                                                                      
اور ہماری پاکستانی قوم میں سب سے بڑی برائی یہ ہے کے اسے الفاظ کو سہی طرح اپنے حق میں استعمال کرنے کا طریقہ نہیں آتا۔                                                                                                                                                 
مثال کے طور پر ملالہ نے کہا کے پاکستان میں لڑکیوں کو پڑھنے کی اجازت نہیں ہے خواتین کی زندگی جیل کی زندگی کی طرح ہے تو لبرلز نے یہ جانتے ہوئے بھی کو جھوٹ ہے شاید پیسے کے لیے یا پھر اس سوچ کے تحت کے اس سے ملالہ کا رتبہ کم ہو جائے گا اس کی ایک بار بھی تردید نہ کی۔ چاہے وہ بختاور زرداری ہو یا پھر مردوں سے طاقتور بلکہ پاکستان کے قانون سے عملا" بالاتر عاصمہ جہانگیر۔                                                                                                 
اور عام کیا پڑھے لکھے پاکستانیوں نے بھی دلائل سے اس کو صرف دشمن ایجنٹ ثابت کرنے کی کوشش کی۔
دونوں طرف جھگڑا ہی ہو رہا ہے اور نقصان پاکستان کا ہو رہا ہے۔                                                       
کسی نے لبرلز کو یہ کہنے کی کوشش نہیں کی نہ انٹرنیشنل میڈیا میں اپنا موقف مناسب طریقے سے پیش کیا کہ وہ بچی ہے چھوٹی سی۔ اپنے علاقے میں اسکے جو آبادی کے لحاظ سے پاکستان کا ایک فیصد ہے کے حالات بیان کر رہی ہے۔باقی پاکستان میں ایسا کچھ نہیں ہے۔                                                                                                                   
اگر بات کچھ اس طرح سے یا اس سے بہتر طریقے سے کی جاتی تو شاید پاکستان کا امیج ملالہ ڈراے سے اتنا خراب نہ ہوتا۔کیونکہ ملالہ کی کھلی مخالفت سے ان کی آواز کو کسی نے نہیں سنا لیکن اگر ملالہ کی مخالفت کی بجائے اس کی تصیح کرنے پہ قوت صرف کی جاتی تو ان کی آواز شاید ریجکٹ کرنا لبرلز کے لیے اتنا آسان نہ ہوتا۔
                                                                                 توصیف احمد کشاف

Monday, September 3, 2012

A gazal from my upcoming Novel ' mujhay rehna hai teray sung piya"