تعلیم بالغاں
آخرکار میں نے اپنے قیمتی وقت میں سے کچھ لمحے آپ لوگوں کی تعلیم و تربیت کے لیے مختص کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
آپ لوگوں کی کم علمی اور ناسمجھی اپنی جگہ مگر مجھے جس بات نے یہ راست قدم اٹھانے پہ مجبور کیا وہ مجھ بڑے ادیب کی تحریروں اور شاعری پہ کیے جانے والے اعتراضات ہیں۔کسی کو میری اعلی پائے بلکہ اعلی چار بائے کی شاعری کے وزن پہ اعتراض ہے توکسی کو میری سنجیدہ اور عقل و دانش کی باتون سے بھر پور تحریریں مزاحیہ یا خرافات نظر آتی ہیں۔
سب سے پہلے میں آپ لوگوں کو اپنی شاعری پہ کیے جانے والے اعتراضات کے پر مغز جوابات دوں گا اور ساتھ ہی جدید شاعری کو پڑھنے، سمجھنے اور لکھنے کا طریقہ بھی سکھاوں گا۔
ایک اور وضاحت بھی کر دوں کہ میں یہ کام صرف خدا ترسی اور علم و ادب کی خدمت کی غرض سے کر رہا ہوں مجھے کوئی بھی ایزی پیسہ کے ذریعے لیکچر کی فیس ادا کرنے کی کوشش نہ کرے۔ اگر پھر بھی کوئی بھجوائے گا تو ظاہر ہے میں کسی کے خلوص کو ٹھکرانے کا گناہ تو نہیں کر سکتا ناں۔
میری شاعری پہ پہلا اعتراض یہ کیا جاتا ہے کہ اس کا وزن برابر نہیں ہے۔
میرے پیارے سٹوڈنٹس اپنے سکول کے زمانے میں ریاضی پہ بھی تھوڑی توجہ دینی تھی ناں۔ کیا ضروری تھا کہ گریس مارکس یا پورے 33 فیصد نمبر ہی لینے ہیں؟
آپ لوگ میری غزلوں کے سب مصرعون کا وزن جمع کر کے کل مصرعوں پہ تقسیم کر کے ایورج وزن نکال لیں۔ آسان سا کام ہے۔
پھر بھی اگر کسی سے اتنی معمولی سی جمع اور تقسیم نہیں ہو سکتی تو میں نے اپنے ایسے نالائق سٹوڈنٹس کے لیے اپنی شاعری میں ایک اور گنجائش بھی رکھی ہے اور وہ یہ کہ آپ میری شاعری کے الفاظ آگے پیچھے کر کے بھی حسب خواہش وزن بنا سکتے ہیں یا چاہیں تو کوئی لفظ ہی شعر سے نکال دیں۔ اس سے شعر کے معنی پہ کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ویسے بھی میں آپ لوگوں کے لیول کو مد نظر رکھتے ہووے معنی و مطالب کی قید سے آزاد شاعری لکھتا ہوں۔
مجھے یقین ہے کہ اب آپ لوگوں کو میری شاعری کے وزن پہ بالکل بھی اعتراض نہیں ہو گا۔
دوسرا اعتراض میری شاعری پہ یہ کیا جاتا ہے کہ میں قابل اعتراض الفاظ اپنی شاعری میںن شامل کرتا ہوں۔
اب یہ اعتراض سن کے تو میں سر پیٹ کے رہ جاتا ہوں۔
اللہ کے بندو آپ لوگوں نے کبھی آج کی تہذیب یافتہ اقوام جسے امریک اور برطانوی لوگوں کی گفتگو نہیں سنی؟ وہ لوگ تو ایسے ایسے الفاظ اپنی روزمرہ کی گفتگو میں استعمال کرتےہیں جنہیں ہم بہت بڑی گالی سمجھتے ہیں۔
ان کے گانوں کا جو آپ لوگ بہت شوق سے سنتے ہیں پنجابی میں ترجمہ کر کے آپ لوگوں کو سنایا جائے تو آپ لوگوں کے کانوں سے دھواں نکلنے لگ جائے۔
میں تو آپ لوگوں کو تھوڑا تہذیب یافتہ بنانے کے لیے ایسے الفاط اپنی شاعری میں استعمال کرتا ہوں۔
مجھے امید ہے کہ آپ لوگوں کے علم میں گراں قدر اضافہ ہوا ہو گا اور آپ لوگوں کی سوچ بھی آج کے لیکچر کے بعد تہذیب یافتہ ہوئی ہو گی۔ اگلے لیکچر تک کے لیے اللہ حافظ
آخرکار میں نے اپنے قیمتی وقت میں سے کچھ لمحے آپ لوگوں کی تعلیم و تربیت کے لیے مختص کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
آپ لوگوں کی کم علمی اور ناسمجھی اپنی جگہ مگر مجھے جس بات نے یہ راست قدم اٹھانے پہ مجبور کیا وہ مجھ بڑے ادیب کی تحریروں اور شاعری پہ کیے جانے والے اعتراضات ہیں۔کسی کو میری اعلی پائے بلکہ اعلی چار بائے کی شاعری کے وزن پہ اعتراض ہے توکسی کو میری سنجیدہ اور عقل و دانش کی باتون سے بھر پور تحریریں مزاحیہ یا خرافات نظر آتی ہیں۔
سب سے پہلے میں آپ لوگوں کو اپنی شاعری پہ کیے جانے والے اعتراضات کے پر مغز جوابات دوں گا اور ساتھ ہی جدید شاعری کو پڑھنے، سمجھنے اور لکھنے کا طریقہ بھی سکھاوں گا۔
ایک اور وضاحت بھی کر دوں کہ میں یہ کام صرف خدا ترسی اور علم و ادب کی خدمت کی غرض سے کر رہا ہوں مجھے کوئی بھی ایزی پیسہ کے ذریعے لیکچر کی فیس ادا کرنے کی کوشش نہ کرے۔ اگر پھر بھی کوئی بھجوائے گا تو ظاہر ہے میں کسی کے خلوص کو ٹھکرانے کا گناہ تو نہیں کر سکتا ناں۔
میری شاعری پہ پہلا اعتراض یہ کیا جاتا ہے کہ اس کا وزن برابر نہیں ہے۔
میرے پیارے سٹوڈنٹس اپنے سکول کے زمانے میں ریاضی پہ بھی تھوڑی توجہ دینی تھی ناں۔ کیا ضروری تھا کہ گریس مارکس یا پورے 33 فیصد نمبر ہی لینے ہیں؟
آپ لوگ میری غزلوں کے سب مصرعون کا وزن جمع کر کے کل مصرعوں پہ تقسیم کر کے ایورج وزن نکال لیں۔ آسان سا کام ہے۔
پھر بھی اگر کسی سے اتنی معمولی سی جمع اور تقسیم نہیں ہو سکتی تو میں نے اپنے ایسے نالائق سٹوڈنٹس کے لیے اپنی شاعری میں ایک اور گنجائش بھی رکھی ہے اور وہ یہ کہ آپ میری شاعری کے الفاظ آگے پیچھے کر کے بھی حسب خواہش وزن بنا سکتے ہیں یا چاہیں تو کوئی لفظ ہی شعر سے نکال دیں۔ اس سے شعر کے معنی پہ کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ویسے بھی میں آپ لوگوں کے لیول کو مد نظر رکھتے ہووے معنی و مطالب کی قید سے آزاد شاعری لکھتا ہوں۔
مجھے یقین ہے کہ اب آپ لوگوں کو میری شاعری کے وزن پہ بالکل بھی اعتراض نہیں ہو گا۔
دوسرا اعتراض میری شاعری پہ یہ کیا جاتا ہے کہ میں قابل اعتراض الفاظ اپنی شاعری میںن شامل کرتا ہوں۔
اب یہ اعتراض سن کے تو میں سر پیٹ کے رہ جاتا ہوں۔
اللہ کے بندو آپ لوگوں نے کبھی آج کی تہذیب یافتہ اقوام جسے امریک اور برطانوی لوگوں کی گفتگو نہیں سنی؟ وہ لوگ تو ایسے ایسے الفاظ اپنی روزمرہ کی گفتگو میں استعمال کرتےہیں جنہیں ہم بہت بڑی گالی سمجھتے ہیں۔
ان کے گانوں کا جو آپ لوگ بہت شوق سے سنتے ہیں پنجابی میں ترجمہ کر کے آپ لوگوں کو سنایا جائے تو آپ لوگوں کے کانوں سے دھواں نکلنے لگ جائے۔
میں تو آپ لوگوں کو تھوڑا تہذیب یافتہ بنانے کے لیے ایسے الفاط اپنی شاعری میں استعمال کرتا ہوں۔
مجھے امید ہے کہ آپ لوگوں کے علم میں گراں قدر اضافہ ہوا ہو گا اور آپ لوگوں کی سوچ بھی آج کے لیکچر کے بعد تہذیب یافتہ ہوئی ہو گی۔ اگلے لیکچر تک کے لیے اللہ حافظ
No comments:
Post a Comment