Monday, October 14, 2013

کچھ ذکر بکروں کا

                                                                           کچھ ذکر بکروں کا
ناں جانے کیوں بکروں کا خیال آتے ہی مجھے میراثی یاد آ جاتے ہیں۔ شاید اس لیے کہ دونوں ہی بہت لاڈلے ہوتےہیں۔ دونوں ہی بہت نخریلے ہوتے ہیں۔ دونوں ہو پانی اور سردی سے بہت ڈرتے ہیں۔ دونوں ہی ذرا سی تکلیف پر شور مچا مچا کے آسمان سر پہ اٹھا لیتے ہیں۔
بکروں کے بارے میں مشہور ہے کہ ان کو بارش ہو گی یا نہیں پہلے پتہ لگ جاتا ہے۔ بزرگوں کی اس بات کی تو تصدیق نہیں ہو سکی ہاں یہ ضرور ہے کہ 10 کلو میٹر دور سے ہی بادل دیکھ کے اس وقت تک شور ضرور مچاتے ہیں جب تک آپ ان کو اندر کمرے میں نہ لے جائیں۔
بکرے کافی حد تک بچوں کی طرح ہوتے ہیں اور اسی طرح ہی آپ سے نخرے بھی اٹھواتے ہیں۔ پچھلی عید پہ ہم عید سے کچھ دن پہلے ہی بکرے لے آئے اور پھر پھنس گئے۔ گملوں میں موجود پودے تو کھائے سو کھائے مگر ایک بندے کو ہر وقت ان کے ساتھ ڈیوٹی بھی دینی پڑی کیونکہ وہ تنہائی کچھ ذیادہ ہی محسوس کرتے تھے اور گھر ک
ے کسی فرد کی غیر موجودگی میں شور مچاتے تھے۔اوپر سے نیند کے بھی شدید کچے۔ رات کو ان کو سوتا سمجھ کے جیسے ہی اٹھ کے اندر آنا میں میں میں شروع۔
بکرے اگر گھر کے پلے ہوئے ہوں تو پھر ان کے نخرے بھی دیدنی ہوتے ہیں اور ان کے ساتھ مزا بھی آتا ہے۔
گھر کے پلے بکرے اکثر سامنے رکھا ہوا چارا کھانے میں توہیں محسوس کرتے ہیں اور صرف آپکے ہاتھ سے ہی کھانا پسند کرتے ہیں۔
ایسے بکرے آپ کے لہجے کو پہچانتے بھی ہیں اور اس پہ رد عمل بھی ظاہر کرتے ہیں۔ کل ہی ایک دوست نے بتایا کہ جو بکرا ہم لائے ہیں وہ بہت تنگ کرتا ہے۔ امی نے غصے میں بولا تو وہ اگلی ٹانگیں اٹھا اٹھا کے ٹکریں مارنے لگ گیا۔ جب آرام سے بات کی تو پھر سکون سے ہاتھ سے چارا کھانے لگ گیا۔
توصیف احمد کشافؔ
 

No comments:

Post a Comment