This site is created to show my poetry , and other written stuff to the world..please do let me know how it is and what you want me to write. Thanks and Regards Tauseef Ahmed Kashaaf
Saturday, November 2, 2013
Monday, October 14, 2013
تعلیم بالغاں
آخرکار میں نے اپنے قیمتی وقت میں سے کچھ لمحے آپ لوگوں کی تعلیم و تربیت کے لیے مختص کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
آپ لوگوں کی کم علمی اور ناسمجھی اپنی جگہ مگر مجھے جس بات نے یہ راست قدم اٹھانے پہ مجبور کیا وہ مجھ بڑے ادیب کی تحریروں اور شاعری پہ کیے جانے والے اعتراضات ہیں۔کسی کو میری اعلی پائے بلکہ اعلی چار بائے کی شاعری کے وزن پہ اعتراض ہے توکسی کو میری سنجیدہ اور عقل و دانش کی باتون سے بھر پور تحریریں مزاحیہ یا خرافات نظر آتی ہیں۔
سب سے پہلے میں آپ لوگوں کو اپنی شاعری پہ کیے جانے والے اعتراضات کے پر مغز جوابات دوں گا اور ساتھ ہی جدید شاعری کو پڑھنے، سمجھنے اور لکھنے کا طریقہ بھی سکھاوں گا۔
ایک اور وضاحت بھی کر دوں کہ میں یہ کام صرف خدا ترسی اور علم و ادب کی خدمت کی غرض سے کر رہا ہوں مجھے کوئی بھی ایزی پیسہ کے ذریعے لیکچر کی فیس ادا کرنے کی کوشش نہ کرے۔ اگر پھر بھی کوئی بھجوائے گا تو ظاہر ہے میں کسی کے خلوص کو ٹھکرانے کا گناہ تو نہیں کر سکتا ناں۔
میری شاعری پہ پہلا اعتراض یہ کیا جاتا ہے کہ اس کا وزن برابر نہیں ہے۔
میرے پیارے سٹوڈنٹس اپنے سکول کے زمانے میں ریاضی پہ بھی تھوڑی توجہ دینی تھی ناں۔ کیا ضروری تھا کہ گریس مارکس یا پورے 33 فیصد نمبر ہی لینے ہیں؟
آپ لوگ میری غزلوں کے سب مصرعون کا وزن جمع کر کے کل مصرعوں پہ تقسیم کر کے ایورج وزن نکال لیں۔ آسان سا کام ہے۔
پھر بھی اگر کسی سے اتنی معمولی سی جمع اور تقسیم نہیں ہو سکتی تو میں نے اپنے ایسے نالائق سٹوڈنٹس کے لیے اپنی شاعری میں ایک اور گنجائش بھی رکھی ہے اور وہ یہ کہ آپ میری شاعری کے الفاظ آگے پیچھے کر کے بھی حسب خواہش وزن بنا سکتے ہیں یا چاہیں تو کوئی لفظ ہی شعر سے نکال دیں۔ اس سے شعر کے معنی پہ کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ویسے بھی میں آپ لوگوں کے لیول کو مد نظر رکھتے ہووے معنی و مطالب کی قید سے آزاد شاعری لکھتا ہوں۔
مجھے یقین ہے کہ اب آپ لوگوں کو میری شاعری کے وزن پہ بالکل بھی اعتراض نہیں ہو گا۔
دوسرا اعتراض میری شاعری پہ یہ کیا جاتا ہے کہ میں قابل اعتراض الفاظ اپنی شاعری میںن شامل کرتا ہوں۔
اب یہ اعتراض سن کے تو میں سر پیٹ کے رہ جاتا ہوں۔
اللہ کے بندو آپ لوگوں نے کبھی آج کی تہذیب یافتہ اقوام جسے امریک اور برطانوی لوگوں کی گفتگو نہیں سنی؟ وہ لوگ تو ایسے ایسے الفاظ اپنی روزمرہ کی گفتگو میں استعمال کرتےہیں جنہیں ہم بہت بڑی گالی سمجھتے ہیں۔
ان کے گانوں کا جو آپ لوگ بہت شوق سے سنتے ہیں پنجابی میں ترجمہ کر کے آپ لوگوں کو سنایا جائے تو آپ لوگوں کے کانوں سے دھواں نکلنے لگ جائے۔
میں تو آپ لوگوں کو تھوڑا تہذیب یافتہ بنانے کے لیے ایسے الفاط اپنی شاعری میں استعمال کرتا ہوں۔
مجھے امید ہے کہ آپ لوگوں کے علم میں گراں قدر اضافہ ہوا ہو گا اور آپ لوگوں کی سوچ بھی آج کے لیکچر کے بعد تہذیب یافتہ ہوئی ہو گی۔ اگلے لیکچر تک کے لیے اللہ حافظ
آخرکار میں نے اپنے قیمتی وقت میں سے کچھ لمحے آپ لوگوں کی تعلیم و تربیت کے لیے مختص کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
آپ لوگوں کی کم علمی اور ناسمجھی اپنی جگہ مگر مجھے جس بات نے یہ راست قدم اٹھانے پہ مجبور کیا وہ مجھ بڑے ادیب کی تحریروں اور شاعری پہ کیے جانے والے اعتراضات ہیں۔کسی کو میری اعلی پائے بلکہ اعلی چار بائے کی شاعری کے وزن پہ اعتراض ہے توکسی کو میری سنجیدہ اور عقل و دانش کی باتون سے بھر پور تحریریں مزاحیہ یا خرافات نظر آتی ہیں۔
سب سے پہلے میں آپ لوگوں کو اپنی شاعری پہ کیے جانے والے اعتراضات کے پر مغز جوابات دوں گا اور ساتھ ہی جدید شاعری کو پڑھنے، سمجھنے اور لکھنے کا طریقہ بھی سکھاوں گا۔
ایک اور وضاحت بھی کر دوں کہ میں یہ کام صرف خدا ترسی اور علم و ادب کی خدمت کی غرض سے کر رہا ہوں مجھے کوئی بھی ایزی پیسہ کے ذریعے لیکچر کی فیس ادا کرنے کی کوشش نہ کرے۔ اگر پھر بھی کوئی بھجوائے گا تو ظاہر ہے میں کسی کے خلوص کو ٹھکرانے کا گناہ تو نہیں کر سکتا ناں۔
میری شاعری پہ پہلا اعتراض یہ کیا جاتا ہے کہ اس کا وزن برابر نہیں ہے۔
میرے پیارے سٹوڈنٹس اپنے سکول کے زمانے میں ریاضی پہ بھی تھوڑی توجہ دینی تھی ناں۔ کیا ضروری تھا کہ گریس مارکس یا پورے 33 فیصد نمبر ہی لینے ہیں؟
آپ لوگ میری غزلوں کے سب مصرعون کا وزن جمع کر کے کل مصرعوں پہ تقسیم کر کے ایورج وزن نکال لیں۔ آسان سا کام ہے۔
پھر بھی اگر کسی سے اتنی معمولی سی جمع اور تقسیم نہیں ہو سکتی تو میں نے اپنے ایسے نالائق سٹوڈنٹس کے لیے اپنی شاعری میں ایک اور گنجائش بھی رکھی ہے اور وہ یہ کہ آپ میری شاعری کے الفاظ آگے پیچھے کر کے بھی حسب خواہش وزن بنا سکتے ہیں یا چاہیں تو کوئی لفظ ہی شعر سے نکال دیں۔ اس سے شعر کے معنی پہ کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ویسے بھی میں آپ لوگوں کے لیول کو مد نظر رکھتے ہووے معنی و مطالب کی قید سے آزاد شاعری لکھتا ہوں۔
مجھے یقین ہے کہ اب آپ لوگوں کو میری شاعری کے وزن پہ بالکل بھی اعتراض نہیں ہو گا۔
دوسرا اعتراض میری شاعری پہ یہ کیا جاتا ہے کہ میں قابل اعتراض الفاظ اپنی شاعری میںن شامل کرتا ہوں۔
اب یہ اعتراض سن کے تو میں سر پیٹ کے رہ جاتا ہوں۔
اللہ کے بندو آپ لوگوں نے کبھی آج کی تہذیب یافتہ اقوام جسے امریک اور برطانوی لوگوں کی گفتگو نہیں سنی؟ وہ لوگ تو ایسے ایسے الفاظ اپنی روزمرہ کی گفتگو میں استعمال کرتےہیں جنہیں ہم بہت بڑی گالی سمجھتے ہیں۔
ان کے گانوں کا جو آپ لوگ بہت شوق سے سنتے ہیں پنجابی میں ترجمہ کر کے آپ لوگوں کو سنایا جائے تو آپ لوگوں کے کانوں سے دھواں نکلنے لگ جائے۔
میں تو آپ لوگوں کو تھوڑا تہذیب یافتہ بنانے کے لیے ایسے الفاط اپنی شاعری میں استعمال کرتا ہوں۔
مجھے امید ہے کہ آپ لوگوں کے علم میں گراں قدر اضافہ ہوا ہو گا اور آپ لوگوں کی سوچ بھی آج کے لیکچر کے بعد تہذیب یافتہ ہوئی ہو گی۔ اگلے لیکچر تک کے لیے اللہ حافظ
کچھ ذکر بکروں کا
کچھ ذکر بکروں کا
ناں جانے کیوں بکروں کا خیال آتے ہی مجھے میراثی یاد آ جاتے ہیں۔ شاید
اس لیے کہ دونوں ہی بہت لاڈلے ہوتےہیں۔ دونوں ہی بہت نخریلے ہوتے ہیں۔
دونوں ہو پانی اور سردی سے بہت ڈرتے ہیں۔ دونوں ہی ذرا سی تکلیف پر شور مچا
مچا کے آسمان سر پہ اٹھا لیتے ہیں۔
بکروں کے بارے میں مشہور ہے کہ ان
کو بارش ہو گی یا نہیں پہلے پتہ لگ جاتا ہے۔ بزرگوں کی اس بات کی تو تصدیق
نہیں ہو سکی ہاں یہ ضرور ہے کہ 10 کلو میٹر دور سے ہی بادل دیکھ کے اس وقت
تک شور ضرور مچاتے ہیں جب تک آپ ان کو اندر کمرے میں نہ لے جائیں۔
بکرے کافی حد تک بچوں کی طرح ہوتے ہیں اور اسی طرح ہی آپ سے نخرے بھی
اٹھواتے ہیں۔ پچھلی عید پہ ہم عید سے کچھ دن پہلے ہی بکرے لے آئے اور پھر
پھنس گئے۔ گملوں میں موجود پودے تو کھائے سو کھائے مگر ایک بندے کو ہر وقت
ان کے ساتھ ڈیوٹی بھی دینی پڑی کیونکہ وہ تنہائی کچھ ذیادہ ہی محسوس کرتے
تھے اور گھر کے کسی فرد کی غیر موجودگی
میں شور مچاتے تھے۔اوپر سے نیند کے بھی شدید کچے۔ رات کو ان کو سوتا سمجھ
کے جیسے ہی اٹھ کے اندر آنا میں میں میں شروع۔
بکرے اگر گھر کے پلے ہوئے ہوں تو پھر ان کے نخرے بھی دیدنی ہوتے ہیں اور ان کے ساتھ مزا بھی آتا ہے۔
گھر کے پلے بکرے اکثر سامنے رکھا ہوا چارا کھانے میں توہیں محسوس کرتے ہیں اور صرف آپکے ہاتھ سے ہی کھانا پسند کرتے ہیں۔
ایسے بکرے آپ کے لہجے کو پہچانتے بھی ہیں اور اس پہ رد عمل بھی ظاہر
کرتے ہیں۔ کل ہی ایک دوست نے بتایا کہ جو بکرا ہم لائے ہیں وہ بہت تنگ کرتا
ہے۔ امی نے غصے میں بولا تو وہ اگلی ٹانگیں اٹھا اٹھا کے ٹکریں مارنے لگ
گیا۔ جب آرام سے بات کی تو پھر سکون سے ہاتھ سے چارا کھانے لگ گیا۔
توصیف احمد کشافؔ
Sunday, October 13, 2013
ساری دنیا انتہا پسند ہے۔
ساری دنیا انتہا پسند ہے۔ چاہے وہ لبرلز ہوں یا پھر مذہب پسند۔ کوئی اپنی بات کی مخالفت کرنے والوں کو دیکھنا پسند نہیں کرتا۔ بلکہ دنیا کی تاریخ اس بات کی گواہ ہے ک لبرلز کہلانے والوں نے ہی دنیا میں اکثر اپنے مخالفین کا قتل عام کیا۔ وہ لوگ جو سزائے موت کے مخالف ہیں وہ اپنے مخالفین کو موت سے کم کسی سزا پہ معاف نہیں کرتے۔عراق، ویت نام، جاپان ، چین، کشمیر اور افغانستان کی تاریخ اس بات کی گواہ ہیں
۔
دنیا کے سب لبرلز میں ایک سب سے بڑی برائی یہ ہے کہ کوئی شخص کسی ایسی وجہ سے مشہور ہو جائے جو اسلام مخالف ہو تو پھر اس کی ہر بات کو بغیر تحقیق سچ مان لینا۔ اس کی غلط بات کو جانتے ہوئے بھی غلط نہ کہنا کہ جیسے اس کی غلط بات کو غلط کہنے سے اس کا قتل ہو جائے گا۔
اور ہماری پاکستانی قوم میں سب سے بڑی برائی یہ ہے کے اسے الفاظ کو سہی طرح اپنے حق میں استعمال کرنے کا طریقہ نہیں آتا۔
مثال کے طور پر ملالہ نے کہا کے پاکستان میں لڑکیوں کو پڑھنے کی اجازت نہیں ہے خواتین کی زندگی جیل کی زندگی کی طرح ہے تو لبرلز نے یہ جانتے ہوئے بھی کو جھوٹ ہے شاید پیسے کے لیے یا پھر اس سوچ کے تحت کے اس سے ملالہ کا رتبہ کم ہو جائے گا اس کی ایک بار بھی تردید نہ کی۔ چاہے وہ بختاور زرداری ہو یا پھر مردوں سے طاقتور بلکہ پاکستان کے قانون سے عملا" بالاتر عاصمہ جہانگیر۔
اور عام کیا پڑھے لکھے پاکستانیوں نے بھی دلائل سے اس کو صرف دشمن ایجنٹ ثابت کرنے کی کوشش کی۔
دونوں طرف جھگڑا ہی ہو رہا ہے اور نقصان پاکستان کا ہو رہا ہے۔
کسی نے لبرلز کو یہ کہنے کی کوشش نہیں کی نہ انٹرنیشنل میڈیا میں اپنا موقف مناسب طریقے سے پیش کیا کہ وہ بچی ہے چھوٹی سی۔ اپنے علاقے میں اسکے جو آبادی کے لحاظ سے پاکستان کا ایک فیصد ہے کے حالات بیان کر رہی ہے۔باقی پاکستان میں ایسا کچھ نہیں ہے۔
اگر بات کچھ اس طرح سے یا اس سے بہتر طریقے سے کی جاتی تو شاید پاکستان کا امیج ملالہ ڈراے سے اتنا خراب نہ ہوتا۔کیونکہ ملالہ کی کھلی مخالفت سے ان کی آواز کو کسی نے نہیں سنا لیکن اگر ملالہ کی مخالفت کی بجائے اس کی تصیح کرنے پہ قوت صرف کی جاتی تو ان کی آواز شاید ریجکٹ کرنا لبرلز کے لیے اتنا آسان نہ ہوتا۔
توصیف احمد کشاف
ساری دنیا انتہا پسند ہے۔ چاہے وہ لبرلز ہوں یا پھر مذہب پسند۔ کوئی اپنی بات کی مخالفت کرنے والوں کو دیکھنا پسند نہیں کرتا۔ بلکہ دنیا کی تاریخ اس بات کی گواہ ہے ک لبرلز کہلانے والوں نے ہی دنیا میں اکثر اپنے مخالفین کا قتل عام کیا۔ وہ لوگ جو سزائے موت کے مخالف ہیں وہ اپنے مخالفین کو موت سے کم کسی سزا پہ معاف نہیں کرتے۔عراق، ویت نام، جاپان ، چین، کشمیر اور افغانستان کی تاریخ اس بات کی گواہ ہیں
۔
دنیا کے سب لبرلز میں ایک سب سے بڑی برائی یہ ہے کہ کوئی شخص کسی ایسی وجہ سے مشہور ہو جائے جو اسلام مخالف ہو تو پھر اس کی ہر بات کو بغیر تحقیق سچ مان لینا۔ اس کی غلط بات کو جانتے ہوئے بھی غلط نہ کہنا کہ جیسے اس کی غلط بات کو غلط کہنے سے اس کا قتل ہو جائے گا۔
اور ہماری پاکستانی قوم میں سب سے بڑی برائی یہ ہے کے اسے الفاظ کو سہی طرح اپنے حق میں استعمال کرنے کا طریقہ نہیں آتا۔
مثال کے طور پر ملالہ نے کہا کے پاکستان میں لڑکیوں کو پڑھنے کی اجازت نہیں ہے خواتین کی زندگی جیل کی زندگی کی طرح ہے تو لبرلز نے یہ جانتے ہوئے بھی کو جھوٹ ہے شاید پیسے کے لیے یا پھر اس سوچ کے تحت کے اس سے ملالہ کا رتبہ کم ہو جائے گا اس کی ایک بار بھی تردید نہ کی۔ چاہے وہ بختاور زرداری ہو یا پھر مردوں سے طاقتور بلکہ پاکستان کے قانون سے عملا" بالاتر عاصمہ جہانگیر۔
اور عام کیا پڑھے لکھے پاکستانیوں نے بھی دلائل سے اس کو صرف دشمن ایجنٹ ثابت کرنے کی کوشش کی۔
دونوں طرف جھگڑا ہی ہو رہا ہے اور نقصان پاکستان کا ہو رہا ہے۔
کسی نے لبرلز کو یہ کہنے کی کوشش نہیں کی نہ انٹرنیشنل میڈیا میں اپنا موقف مناسب طریقے سے پیش کیا کہ وہ بچی ہے چھوٹی سی۔ اپنے علاقے میں اسکے جو آبادی کے لحاظ سے پاکستان کا ایک فیصد ہے کے حالات بیان کر رہی ہے۔باقی پاکستان میں ایسا کچھ نہیں ہے۔
اگر بات کچھ اس طرح سے یا اس سے بہتر طریقے سے کی جاتی تو شاید پاکستان کا امیج ملالہ ڈراے سے اتنا خراب نہ ہوتا۔کیونکہ ملالہ کی کھلی مخالفت سے ان کی آواز کو کسی نے نہیں سنا لیکن اگر ملالہ کی مخالفت کی بجائے اس کی تصیح کرنے پہ قوت صرف کی جاتی تو ان کی آواز شاید ریجکٹ کرنا لبرلز کے لیے اتنا آسان نہ ہوتا۔
توصیف احمد کشاف
Subscribe to:
Posts (Atom)